خطبات

خطبہ (۲۳۳)

(٢٣٣) وَ مِنْ كَلَامٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ

خطبہ (۲۳۳)

اِقْتَصَّ فِيْهِ ذِكْرَ مَا كَانَ مِنْهُ بَعْدَ هِجْرَةِ النَّبِیِّ ﷺ ثُمَّ لَحَاقَهٗ بِهٖ.

اس میں پیغمبر ﷺ کی ہجرت کے بعد اپنی کیفیت اور پھر اُن تک پہنچنے تک کی حالت کا تذکرہ کیا ہے۔ [۱]

فَجَعَلْتُ اَتْبَعُ مَاْخَذَ رَسُوْلِ اللهِ -ﷺ فَاَطَاُ ذِكْرَهٗ، حَتَّی انْتَهَیْتُ اِلَی الْعَرَجِ. (فِیْ كَلَامٍ طَوِيْلٍ).

میں رسولﷺ کے راستہ پر روانہ ہوا اور آپؐ کے ذکر کے خطوط پر قدم رکھتا ہوا مقامِ عرج تک پہنچ گیا۔ (سیّد رضیؒ کہتے ہیں کہ: یہ ٹکڑا ایک طویل کلام کا جز ہے)۔

قَوْلُهٗ ؑ: »فَاَطَاُ ذِكْرَهٗ«، مِنَ الْكَلَامِ الَّذِیْ رُمِیَ بِهٖۤ اِلٰی غَایَتَیِ الْاِیْجَازِ وَ الْفَصَاحَةِ. اَرَادَ اَنِّیْ كُنْتُ اُعْطٰی خَبَرَهٗ ﷺ- مِنْۢ بَدْءِ خُرُوْجِیْۤ اِلٰۤی اَنِ انْتَهَیْتُ اِلٰی هٰذَا الْمَوْضِعِ. فَكَنّٰی عَنْ ذٰلِكَ بِهٰذِهِ الْكِنَایَةِ الْعَجِیْبَةِ.

اور «فَاَطَاُ ذِكْرَهٗ» ایسا کلام ہے جس میں منتہا درجہ کا اختصار اور فصاحت ملحوظ رکھی گئی ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ ابتدائے سفر سے لے کر یہاں تک کہ میں اس مقامِ عرج تک پہنچا برابر آپؐ کی اطلاعات مجھے پہنچ رہی تھیں۔ آپؐ نے اس مطلب کو اس عجیب و غریب کنایہ میں ادا کیا ہے۔

۱؂پیغمبر اسلام ﷺ بعثت کے بعد تیرہ برس تک مکہ میں رہے۔ یہ عرصہ آپؐ کی انتہائی مظلومیت و بے سر و سامانی کا تھا۔ کفارِ قریش نے آپؐ پر وسائل معیشت کے تمام دروازے بند کر دئیے تھے اور ایذا رسانی کا کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا تھا، یہاں تک کہ آپؐ کی جان کے دشمن ہو کر اس فکر میں لگ گئے کہ کسی طرح آپؐ کا کام تمام کر دیا جائے۔ چنانچہ ان کے چالیس سرکردہ افراد دار الندوہ میں صلاح و مشورہ کیلئے جمع ہوئے اور یہ فیصلہ کیا کہ ہر قبیلہ سے ایک ایک فرد منتخب کر لیا جائے اور وہ مل کر آپؐ پر حملہ کریں۔ اس طرح بنی ہاشم یہ جرأت نہ کر سکیں گے کہ تمام قبائل کا مقابلہ کریں اور یہ معاملہ خون بہا پر ٹل جائے گا۔ اس قرارداد کو عملی جامہ پہنانے کیلئے ربیع الاول کی شبِ اوّل کو یہ لوگ پیغمبر ﷺ کے گھر کے قریب گھات لگا کر بیٹھ گئے کہ جب حضرتؐ بستر پر استراحت فرمائیں تو ان پر حملہ کر دیا جائے۔

ادھر قتل کی تیاری مکمل ہو چکی تھی، اُدھر قدرت نے کفار قریش کی تمام سازشوں سے آپؐ کو آگاہ کر دیا اور حضرت علی علیہ السلام کو اپنے بستر پر سلا کر مدینہ کی طرف ہجرت کر جانے کا حکم دیا۔ چنانچہ پیغمبر ﷺ نے علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو بلا کر اُن سے اپنا ارادہ ظاہر کیا اور فرمایا کہ: اے علیؑ! تم میرے بستر پر لیٹ جاؤ۔ امیر المومنین علیہ السلام نے کہا کہ: یا رسول اللہؐ! کیا میرے سو جانے سے آپؑ کی جان بچ جائے گی؟ فرمایا کہ: ہاں!۔ یہ سن کر امیر المومنین علیہ السلام سجدۂ شکر بجا لائے اور سر و تن کی بازی لگا کر رسول ﷺ کے بستر پر لیٹ گئے اور پیغمبر ﷺ مکان کے عقبی دروازے سے نکل گئے۔

کفار قریش جھانک جھانک کر دیکھ رہے تھے اور حملہ کیلئے پر تول رہے تھے کہ ابو لہب نے کہا کہ رات کے وقت حملہ کرنا مناسب نہیں، کیونکہ گھر میں عورتیں بچے ہیں جب صبح ہو تو حملہ کر دینا اور رات بھر ان پر کڑی نگرانی رکھو کہ ادھر اُدھر نہ ہونے پائیں۔ چنانچہ رات بھر وہ بستر پر نظریں جمائے رہے اور جب پو پھٹی تو دبے پاؤں آگے بڑھے۔ امیر المومنین علیہ السلام نے اُن کے قدموں کی چاپ سن کر چادر الٹ دی اور اٹھ کھڑے ہوئے۔ قریش آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے لگے کہ یہ نظروں کا پھیر ہے یا حقیقت ہے، مگر جب یقین ہو گیا کہ یہ علی علیہ السلام ہیں تو پوچھا کہ: محمد ﷺ کہاں ہیں؟ فرمایا کہ: کیا مجھے سپرد کر گئے تھے جو مجھ سے پوچھتے ہو؟ اس کا ان کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ تعاقب میں آدمی دوڑائے مگر غار ثور تک نشان قدم ملتا رہا اور اس کے بعد نہ نشانِ قدم تھا اور نہ غار میں چھپنے کے کچھ آثار تھے۔ حیران و سراسیمہ ہو کر پلٹ آئے اور پیغمبر ﷺ تین دن غار ثور میں گزار کر مدینہ کی طرف چل دئیے۔ امیر المومنین علیہ السلام نے یہ تین دن مکہ میں گزارے، لوگوں کی امانتیں اُن کے حوالے کیں اور پھر پیغمبر ﷺ کی جستجو میں مدینہ کی طرف روانہ ہو گئے۔ مقام عرج تک جو مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک بستی ہے پیغمبر ﷺ کا پتہ انہیں چلتا رہا اور اُن کی تلاش میں قدم شوق اٹھتا رہا، یہاں تک کہ بارہ ربیع الاوّل کو مقام قبا میں پیغمبر ﷺ سے جا ملے اور پھر انہی کے ہمراہ مدینہ میں داخل ہوئے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button